!!!انس کے دوھے

دنیا ایک سراب ہے پختہ ہوا یقین
میں جتنا چلتا گیا اتنی چلی زمین

چھپا گیا گہرائی میں دریا اپنا جال
میں جب بھی اندر گیا بہار دیا اچھال

کیسے سنتا ہے صدا خدا کھول یہ راز
چلتی نہیں خلاؤں میں کوئی بھی آواز

ہم سے دل بہلا لیا دے دی پھیر رسوائی
دیا جلا کر پھونک دیا جیسے دیا سللائی

اب جو جنگیں ہو رہیں لے لیتی ہیں جان
لیکن کہیں شریر پر آتا نہیں نشان

تو مجھ میں محدود ہے میں تجھ میں محدود
میرے ساے میں تیرا دکھنے لگا وجود

ان آنکھوں میں قید ہے اس دنیا کا سنسار
بہار خالی عکس ہے اندر ہے سنسار

اپنے اندر کھوج لو خود اپنی پہچان
پورا بنا زمین کے ہوتا نہیں مکان

بدن چائے کی کیتلی اور زندگی زوال
رنگ اترا اتنا انس جتنا ملا ابال

راکھی سے تھامے رہا بہنا تیری کلائی
جب جب دل کانپا تیرا کمپن مجھ تک آئی

تنی رہی یہ خال بھی جب تک رہے جواں
انس مسلسل بوجھ سے جھل گی ادوان