!!امسالہ بکر پرائز سری لنکا کے ادیب شیہان کرونا تیلاکا کے نام

By– Maqbool Malik 

اس سال کا بکر پرائز سری لنکا کے ادیب شیہان کرونا تیلاکا نے اپنے ایک سیاسی طنزیہ ناول کی وجہ سے جیت لیا۔ ’مالی المیدا کے سات چاند‘ نامی یہ ناول سری لنکا کی طویل خانہ جنگی کے موضوع پر سیاسی نوعیت کی ایک طنزیہ تصنیف ہے۔

اس سری لنکن ادیب کو یہ اعزاز پیر 17 اکتوبر کی شام برطانوی دارالحکومت لندن میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں دیا گیا۔ کورنا تیلاکا نے اس تقریب میں بکر پرائز وصول کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کا یہ ناول سری لنکا میں بھی پڑھا جائے گا، ”ایک ایسا ملک جو اپنی کہانیوں سے سیکھتا بھی ہے۔‘‘

جنوبی ایشیا کی جزیرہ ریاست سری لنکا میں 1990ء کی دہائی کے حالات کے تناظر میں لکھا گیا یہ ناول ایک ایسے ہم جنس پرست فوٹوگرافر کے بارے میں ہے، جو ملک میں جاری خانہ جنگی کے دوران ایک صبح جاگتا ہے تو مر چکا ہوتا ہے۔ مالی المیدا نامی اس فوٹوگرافر کے پاس وقت کی مہلت کے طور پر صرف سات چاند ہوتے ہیں اور اسی عرصے میں اسے اپنے ان عزیزوں تک پہنچنا ہوتا ہے، جو اس کی وہ تصاویر تلاش کر سکتے ہیں، جن میں المیدا نے سری لنکا میں خانہ جنگی کے دوران کیے جانے والے مظالم کو ریکارڈ کیا ہوتا ہے۔

امسالہ بکر پرائز کی جیوری کے سربراہ نیل میکگریگر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرونا تیلاکا کا یہ ناول ایک ”مابعد الطبیعیاتی تھرلر ہے، جو بعد از حیات کی تاریکی کا اس طرح احاطہ کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے نہ صرف تخلیقی ادب کی مختلف اقسام کی حدود بلکہ زندگی اور موت، جسم اور روح حتیٰ کہ مشرق و مغرب کے درمیان سرحدیں بھی تحلیل ہوتی جاتی ہیں۔‘‘ نیل میکگریگر کے مطابق یہ ادب پارہ ایک بھرپور ‘فلسفیانہ کھوج‘ بھی ہے اور اسے سال 2022ء کے لیے بکر پرائز کا حق دار اس لیے ٹھہرایا گیا کہ اس میں مصنف نے اپنی تخلیقی ‘سوچ، اہلیت اور حوصلے کا بڑی شفافیت اور ہمت سے بہترین اظہار‘ کیا ہے۔

شیہان کرونا تیلاکا کو لندن میں منعقدہ تقریب میں یہ اعزاز برطانوی ملکہ کامیلا نے دیا۔ کرونا تیلاکا کی یہ کتاب برطانیہ کےSort of Books نامی ایک آزاد اشاعتی ادارے نے شائع کی ہے۔ انہیں بکر پرائز کے ساتھ 50 ہزار پاؤنڈ (قریب 57 ہزار ڈالر) کا نقد انعام بھی دیا گیا۔ یہ اعزاز وصول کرنے کے بعد کرونا تیلاکا نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کی یہ تصنیف کتابوں کی دکانوں اور کتب خانوں میں ”تخیل کے شعبے میں رکھی جائے گی، نہ کہ اسے غلطی سے حقیقت پسندی یا سیاسی طنز نگاری سمجھ لیا جائے۔‘‘

شیہان کرونا تیلاکا 1975ء میں جنوب مغربی سری لنکا کے شہر گالے میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی پرورش ملکی دارالحکومت کولمبو میں ہوئی۔ وہ کافی عرصے سے بہت سے بین الاقوامی جرائد اور رسائل کے لیے لکھتے ہیں اور سنگاپور، ایمسٹرڈم اور لندن میں قیام کے دوران وہاں کام بھی کرتے رہے ہیں۔ اب کرونا تیلاکا دوبارہ کولمبو ہی میں رہتے ہیں اور اپنے پسندیدہ ترین ادیبوں کے طور پر کرٹ وونگٹ، نک ہارنبی اور ولیم گولڈمین کا خاص طور پر تذکرہ کرتے ہیں۔ اس سری لنکن ادیب کو پہلی مرتبہ بین الاقوامی سطح پر ادبی حلقوں کی توجہ اس وقت ملی تھی، جب 2011ء میں ان کا اولین ناول ‘چائنہ مین‘ شائع ہوا تھا۔

اس سال کے بکر پرائز کے لیے جن دیگر ادیبوں کے نام شارٹ لسٹ کیے گئے تھے، ان میں برطانیہ کے ایلن گارنر، زمبابوے کی نووائلٹ بولاوائیو اور امریکی مصنف پیرسیوال ایویرٹ بھی شامل تھے۔ بکر پرائز ایسی ادبی تخلیقات پر دیا جاتا ہے، جو بنیادی طور پر انگریزی زبان میں لکھی گئی ہوں۔

قبل ازیں اسی سال بھارتی مصنفہ گیتانجلی شری نے اپنے ہندی زبان میں لکھے گئے ناول ’ریت کا مقبرہ‘ کی وجہ سے انٹرنیشنل بکر پرائز جیتا تھا۔ یہ بھارت میں بولی جانے والی زبانوں میں سے کسی بھی زبان میں لکھا گیا ایسا پہلا ناول تھا، جسے انٹرنیشنل بکر پرائز کا حق دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اس اعزاز کے لیے گیتانجلی شری سمیت پانچ مصنفین کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا اور وہ سب کی سب خواتین تھیں۔ انٹرنیشنل بکر پرائز ایسی ادبی تخلیقات پر دیا جاتا ہے، جن کے انگریزی زبان سمیت بین الاقوامی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہوں