!!!البیر کامیو کا ناول “زوال

By– ستار طاہر

“زوال” (French: La Chute/ English: The Fall) ایک مانولاگ ہے۔ یہ مانولاگ ایک ایسے شخص کا ہے جو کبھی پیرس کا کامیاب ترین قانون دان تھا۔ ایمسٹرڈیم کی ایک بار میں اس خودکلامی کا آغاز ہوتا ہے۔ اس سابق کامیاب وکیل نے اپنا بیپٹسٹ نام ژاں بی کلمسین/جان دی بیپٹسٹ کے نام پر رکھا ہے۔ ظاہر اس کا اصلی نام کچھ اور ہے۔ یہ آلبیرکامیو کے ناول کا ہیرو اور بنیادی کردار ہے۔

” زوال ” میں کامیو کا مخصوص اسلوب اپنے عروج پر ہے۔ ایک تند و تیز ، طنز اور تلخی سے مملو۔ یہ کردار اپنے ماضی کے شاندار زمانے کو یاد کرتا ہے جب اسے ضمیر کا سکون میسر تھا۔ جب زندگی اور اس کے درمیان کوئی تیسری چیز مائل نہیں تھی۔ اس شاندار اور پُرسکون دور میں ایک شام اس نے اپنے پیچھے ایک گہرے دلی قہقہے کی آواز سنی۔ یہ ایک دوستانہ قہقہہ تھا۔ وہ یہ نہیں دیکھ سکا کہ یہ قہقہہ کس نے لگایا تھا لیکن جب گھر جاکر وہ آئینے میں اپنی صورت دیکھنا ہے تواُسے یوں نظر آتا ہے جیسے اس کی مسکراہٹ دوہری ہے۔

اس واقعہ کے بعد وہ بدل جاتا ہے۔ وہ اپنے بارے میں مختلف باتوں کو جانتا ہے جن میں ایک اہم انکشاف یہ ہے کہ وہ ایک بے کار اداکار ہے جو اپنے فائدے کے لیے اداکاری کرتا ہے۔ اس کی زندگی محض ایک تسلسل ہے۔ میں ، میں ، میں کا۔ ایک اجنبی نے بازار میں اسے پیٹا اور اس کی توہین کردی۔ کئی دنوں تک وہ تلخی اور رنج کے شکنجے میں جکڑا رہا۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کا وجود دو حصوں میں بٹا ہے۔ اس کا نصف، ایک مڈل ویٹ پاکسنگ چیمپئن اور نصف ڈیگال پر مشتمل ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ کنورپن کے زمانے میں اس نے عورتوں کے ساتھ کیسے کیسے کھیل کھیلے۔ وہ ان سے محبت کا تجربہ نہیں کرتا تھا بلکہ اپنے آپ سے اس وقت تک لطف اندوز ہوتا جب تک بور نہ ہوجاتا۔

پھر وہ اعتراف کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں دو یا تین برس ہوئے جب اس نے قہقہے کی آواز سنی۔ اس نے موت کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ۔ لوگوں کی مدد کرنے کے بجائے اس نے لوگوں کی اہانت شروع کردی۔ وہ ان سے متشددانہ طریقے سے پیش آیا۔ اس نے جارحیت اپنالی۔ وہ بازاروں میں مزدوروں کو دیکھ کر ان پر آوازیں کسنے لگا۔ بچوں کو پکڑ کر پیٹنے لگتا ۔ اس کی پرانی عادتیں بدل گئیں۔ وہ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگا جن کے بارے میں اسے خود معلوم نہ ہوتا تھا کہ وہ ایسا کیوں کررہا ہے۔ اس نے لذت اور شراب میں اپنے آپ کو ٖغرق کرنا چاہا لیکن اس سے بھی سہارا نہ ملا۔ اسے یاد آتا کہ اس نے ایک دبلی پتلی نوجوان عورت کو جو سیاہ لباس میں ملبوس تھی دریائے سین کے پل سے چھلانگ لگاتے دیکھ کر مرنے سے نہیں روکا تھا۔ اب اس لڑکی کا جسم “میرا انتظار کرتا ہے۔ ہر جگہ۔۔۔۔” اسئ ،ضسوس ہوتا ہے کہ وہ صحت یاب نہیں ہوسکتا۔ وہ مذہب کا دُشمن ہوجاتا ہے۔ یسوع کے بارے میں ایک نیا تصور اس کے ذہن میں جنم لیتا ہے۔ “وہ سپر مین نہیں تھا۔” اس نے بلند آواز میں اپنے کرب کا اظہار کیا تھا، “لیکن بدقسمتی سے وہ ہمیں اکیلا چھوڑ گیا۔”

اسے ملیریا ہوجاتا ہے ۔ وہ بستر پر لیٹا ہے، اسے جنگ یاد آتی ہے۔ وہاں اسے پوپ بنایا گیا تھا کیونکہ بدقسمت اور کچلے ہوئے انسانوں کو ایک پوپ کی ضرورت ہے۔ وہاں جنگ کے درمیان کیمپ میں پوچھا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ ناکامیاں کس نے دیکھی ہیں؟ وہ مذاق میں اپنا ہاتھ اٹھا دیتا ہے اور اسے پوپ بنا دیا جاتا ہے۔ اسے گروپ لیڈر بنا کر پانی کی ذمے داری سونپ دی جاتی ہے۔

“اس روز میں نے دن کے دائرے کو بند کردیا۔ جب مَیں نے ایک مرتے ہوئے رفیق کے حصے کا پانی پی لیا تھا۔ ” وہ کہتا ہے کیا غلامی کی تبلیغ کرتا رہوں گا؟ اگرچہ لوگ اس کی اہمیت کو جلدی نہیں سمجھ سکتے لیکن وہ انسانوں کو حقیقی آزادی دلوانا چاہتا ہے۔ وہ اختصار سے بتاتا ہے کہ وہ کس طرح ایمسٹرڈیم آیا۔ اس نے پیرس میں اپنا دفتر بند کیا اور سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ وہ تلافی اور توبہ کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اس قابل ہوسکے کہ اس کا انجام ایک جج کی حیثیت سے ہو۔

“میں اپنے آپ پر الزام لگاتا ہوں، اوپر سے نیچے تک، لیکن عین اسی وقت میں نے جو پوٹریٹ اٹھا رکھا ہے وہ میرے ہم عصروں کے لیے ایک آئینہ بن گیا ہے۔”

وہ ایک خواہش کے عذاب میں مبتلا ہے۔

“اے نوجوان عورت! ایک بار پھر اپنے آپ کو دریائے سین میں پھینکو تاکہ مجھے ایک موقع دوسری بار مل سکے کہ دونوں کو ، تمھیں اور اپنے آپ کو بچا سکوں۔”

“یا پھر ہم دونوں ایک ہی اس راستے سے گزرجاتے اور پھر۔۔۔۔”

“خوش قسمتی سے ہمیشہ تاخیر ہوجاتی ہے۔”

“زوال” کو کامیو کا بہترین ناول تسلیم کیا گیا ہے، حتیٰ کہ سارتر کی بھی یہی رائے تھی۔ اس ناول کی کئی انداز سے تشریح و تفسیر کی گئی ہے۔ بعض ناقدوں نے اسے مارلسسٹوں اور ان کے ہم سفروں پر طنز قرار دیا ہے۔ ایک نقّاد ناتھن اسے سکاٹ نے اسے انسان کے دوغلے پن اور منافقت کے موضوع پر بہترین ناول قرار دیا ہے کیونکہ “زوال” کا ہیرو خود غلامی کے سامنے سر نہیں جھکاتا، اسے تسلیم نہیں کرتا لیکن غلامی کا پرچار کرتا ہے۔ یوں وہ کامیو کے اپنے نظریات کے مطابق باغی کا کردار ادا کرتا ہے۔

بعض ناقدوں نے اسی ناول کے حوالے سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کامیو مذہب کے دائرے میں داخل ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ مذہب کو تسلیم کرنے کا آغاز کرتا ہے۔ بہرحال ایک ایسا نکتہ ہے جس پر بیشتر نقّاد اتفاق کرتے ہیں کہ ناول وجودیت دُشمنی کا اظہار کرتا ہے۔ کامیو نے سارتر کے نظریات کو نشانہ بنایا ہے۔ وہ قہقہہ جو “زوال” کے مرکزی کردار نے سنا تھا اور اُسے یاس کرتا ہے دراصل یہ قہقہہ اس کی دورُخی پر لگایا گیا ہے کیونکہ وہ جو کہتا ہے اس پر عمل نہیں کرتا۔

“زوال” کا کلیمنس اس وقت تک ایک پرسکون زندگی بسر کرتا ہے لیکن جب اس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہ تو ایک منافق ہے تو وہ اپنا تجزیہ کرتا ہے۔ یہ تجزیہ اسے اپنی اہانت کی طرف لے جاتا ہے اور اپنی ذات کی اہانت اُسے تمام انسانوں کی توہین کی راہ دکھاتی ہے۔ “زوال” کا یہ کلیدی استعارہ ہے کہ وہ ایک غلام ہے، اپنی اس ضرورت کا کہ باتیں، اس کی خطابت بھی اسکے جھوٹ نہیں چھپا سکتی۔ وہ اکیلا ہے اور بنجر ہوچکا ہے۔ تاہم وہ سمجھتا ہے کہ ہم روشنی کا راستہ، صبحیں اور ان لوگوں کی پاک معصومیت کھوچکے ہیں جو اپنے آپ کو معاف کردیا کرتے تھے۔ اب ہم اپنے آپ کو معاف کرنے کی صلاحیت اور معصومیت سے محروم ہوچکے ہیں۔

“زوال” کا مطالعہ ہم پر آج کے انسان کی صحیح صورت واضح اور اس زندگی کا آئینہ دکھاتا ہے جہاں انسان ان گنت الجھنوں اور پیچیدگیوں میں جکڑا ہوا ایک سادہ اور آسان زندگی گزارنے کا خواب دیکھتا ہے۔ انسان کا زوال ہوچکا ہے۔ کبھی وہ مجرموں اور ملزموں کے مقدمے لڑتا تھا، اب انسان سے یہ موقع بھی چھن گیا ہے کہ وہ دریا کے پُل سے دریا میں چھلانگ لگانے والی نوجوان عورت کو روک کر بچا سکے۔

کامیو ہمیں “زوال” میں بتاتا ہے کہ انسان اپنی زبردست اور ہرقوت آقائیت پر یقین رکتھے ہوئے ایک بہت بڑے فراڈ کا روپ دھار چکا ہے۔ وہ اپنے کرب کو برداشت کرتا ہے۔ مجبور ہے کہ اپنے آپ سے باتیں کرے۔ یہ تصور کامیو کے ہاں ایک فلسفے کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور پھر کامیو اس ناول میں ایک خاص معذرت کرتا ہوا بھی ملتا ہے کہ انسان منصف نہیں بن سکتا۔ اس حوالے سے کامیو نے بعذرت کی ہے کہ وہ مورالسٹ (Moralist) نہیں ہے۔ “زوال” دُنیا کے عظیم ناولوں میں سے ایک ہے کیونکہ اس میں آج کا انسان ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ ایک بڑے فنکار نے اسے لکھا ہے جس کا ایک مخصوص فلسفۂ حیات تھا۔

مشمولہ:

کتاب : دنیا کی سو عظیم کتابیں

تجزیہ نگار : ستار طاہر

ناشر : بک کارنر، جہلم