!!افسانہ ۔۔۔ وزیٹنگ کارڈ

••• افسانہ ۔۔۔ وزیٹنگ کارڈ •••

منیر احمد فردوس

(سماجی نابلوغت کے باعث کچھ موضوعات اب بھی شجرِ ممنوعہ سمجھے جاتے ہیں جن پر سماج نے ریشمی غلاف چڑھا رکھے ہیں۔)

پورا سماج اس کے لئے ایک منڈی کی حیثیت رکھتا تھا اور وہ اُسے سماجی منڈی کے نام سے ہی جانتی تھی کیونکہ سماج نے اسے ہمیشہ عورت کی بجائے ایک تازہ جنس کے طور پر دیکھا جو اسے لذیذ ماس سمجھ کر چیلوں کی طرح اُس کے ارد گرد منڈلانے لگا تھا۔ اس لیے وہ سماجی منڈی کے چال چلن سے اچھی طرح واقف ہو گئی اور خوب آگاہ تھی کہ یہاں کون سا مال کب اور کیسے بکتا ہے؟ کون اِس کا خریدار ہے، کون اِسے بیچنے والا اور کون کس کو دینے والا ہے؟ اِن حقیقتوں کا کھارا پانی پینے کے بعد وہ سماجی منڈی کی دنیا کے اندر باہر کی تمام کڑواہٹوں کو اچھی طرح پہچان چکی تھی اس لیے کوئی بھی چہرہ اب اُس کے لئے اجنبی نہیں رہا تھا۔ ہر طرف گھومتے پھرتے دلالوں سے وہ خوب آشنا ہو گئی جن کی دسترس میں پوری منڈی تھی اور وہی ہر قسم کے مال کے بھاؤ تاؤ طے کرنے کے ازلی سوداگر تھے جو سب کے سب انتہائی اثرو رسوخ والے۔ ان کی چمکتی آنکھوں سے جو اندھیرے پھوٹتے تھے، تھوتھنیوں سے جو رال ٹپکتی تھی اور کھال منڈھے چہروں کے پیچھے جو کمینگی جھانکتی تھی وہ سب جانتی تھی، اُس سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں تھا۔

اُسے اپنے ابتدائی دنوں کی وہ کٹھنائیاں اچھی طرح یاد تھیں جب سماجی دلالوں کی طرف انکار کا تیر پھینکنے کے بعد خواری کے جنگل میں اس کا شکار کھیلا جانے لگا۔ زندگی کے رذیل ترین دن دیکھنے کے بعد اسے سمجھ آ گئی تھی کہ سماجی منڈی کے اِن دلالوں سے بگاڑنے یا منہ موڑنے کا مطلب تھا گھٹ گھٹ کے جینا اور روز اپنے ہاتھوں سے سانسیں نچوڑ کر موت کو اپنے حلق میں اتارنا۔ وہ ایسی اذیت ناک زندگی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی بلکہ وہ تو بھر پور انداز میں جینا چاہتی تھی کیونکہ اسے خبر تھی کہ اس کی سانسوں سے کئی سانسیں چل رہی تھیں اور ان سانسوں کا چل چلاؤ اس کے بے پناہ حسن میں ہی پوشیدہ تھا، جس نے چھوٹی عمر سے ہی اس کی راہوں میں مشکلات کے گڑھے کھود ڈالے تھے۔

وہ کچھ بھی نہیں بھولی تھی۔ شدید ترین مزاحمت اور مخالفت کے باوجود بچپن سے ہی اُسے کئی ہاتھ جگہ جگہ سے ٹٹول چکے تھے۔ بڑی ہوئی تو اس کے جسم کے زاویئے بے طرح بولنے لگے جس کی مسحور کن آوازیں ہر آنے جانے والے کو سنائی دینے لگیں اور بے شمار آنکھیں اُسے رک رک کے دیکھنے لگی تھیں۔ اُس کے بولتے ہوئے خدوخال کبھی بھی چپ کی زبان نہ سیکھ سکے اس لئے اُس کے پر کشش بدن کا میٹھا میٹھا شور آس پاس کے گلی کوچوں میں ابھرنے لگا۔ لوگوں نے اس کی راہ دیکھنے کے لئے جگہیں طے کر لیں کہ وہ کب، کس وقت، کہاں سے گزرتی ہے؟ جوں جوں اس کے بدن کا شور بڑھتا جا رہا تھا اس کے ارد گرد رال ٹپکانے والی تھوتھنیوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے ہزاروں جتن کر ڈالے مگر وہ اپنے سنہری جسم کے کھیت پر اگی ہریالیاں کسی سے بھی نہ چھپا سکی۔ راہ چلتے، آتے جاتے، سنسان گلیوں میں پیچھا کرنے والے سبھی موقع پاتے ہی اُس کے بدن کی سلطنت میں گھس کر اس کا چپہ چپہ ٹٹولنے لگتے تھے۔ اِن بازاری رویوں نے اس کے لئے عزت سے جینا دو بھر کر دیا۔ اُسے نہ گھر کی ناتوانی پناہ دے سکی تھی اور نہ ہی اہلِ علاقہ بلکہ محلے بھر کی ندیدی آنکھیں بھی اس کے بدن کی سرحدوں پر کب کی پڑاؤ ڈال چکی تھیں۔

ایک دن وہ ایک سنسان سی گلی سے گزر رہی تھی کہ اچانک دو تین لڑکوں نے اس کے لچکتے جسم کی دیوار پھاند کر اسے زبردستی گھیرے میں لے لیا اور اپنے ہاتھوں اور ہونٹوں سے جگہ جگہ سے اسے چکھنے لگے تھے۔ وہ کسمسائی، تڑپی، چیخی مگر ان کی گرفت سے آزاد نہ ہو سکی۔

”یہ کیا بے ہودگی ہے؟“

اچانک ایک بھاری بھرکم سی آواز گونجی اور لڑکے اُسے چھوڑ کر فوراً بھاگ گئے۔ وہ بدحواس ہو کر اپنے آپ کو سمیٹنے لگی۔ کالا چشمہ لگائے سفید کپڑوں میں ملبوس وہ کوئی اجنبی تھا جو کسی گھر سے نکل رہا تھا۔ اُس کے پھوٹ پڑتے زاویئے دیکھ کر وہ بھی اپنی جگہ پر ہکا بکا کھڑا تھا۔

”یہ میرا وزٹنگ کارڈ رکھ لو، کبھی بھی میری ضرورت پڑ جائے تو رابطہ کر لینا۔“

وہ کارڈ لے کر گھر آ گئی مگر اُس کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئیں۔ شور مچاتا اس کا بھرا بھرا بدن جہاں ہر وقت نسوانی حسن کی موسلا دھار بارشیں جاری رہتیں، بل کھاتے زاویوں میں اس کے پہاڑی سلسلے چھپائے نہیں چھپتے تھے جن کی تنی ہوئی چوٹیاں دور سے ہی دکھائی دیتی تھیں اور اس کے پہاڑی سلسلوں کو سر کرنے روز کوئی نہ کوئی اُس کی طرف بڑھنے لگتا۔ وہ اِس صورتحال سے پریشان ہو گئی کہ بھلا اُسے سماجی منڈی کے دلال جینے کیوں نہیں دیتے؟

ایک دن اُس کے جسم نے خود اسے ہی پکارا تو وہ آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور آئینے میں جھانک کر اس نے خود کو غور سے دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی۔ واقعی لوگوں کا قصور نہیں تھا۔ اپنے تن بدن میں ہونے والی نسوانی کشش کی موسلادھار بارشوں کی ٹپ ٹپ وہ خود بھی سننے لگی۔ اُسے پہلی بار احساس ہوا کہ اس کے شور کرتے نسوانی خدوخال چار تہوں میں بھی نہیں چھپ سکتے تھے اور خوب بول رہے تھے۔ یہ صورتحال دیکھ کر وہ حیران رہ گئی بلکہ اپنے اکڑے ہوئے زاویوں کا پھیلاؤ دیکھ کر اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ عام عورتوں جیسی ہر گز نہیں ہے تبھی تو اُس کے ارد گرد منڈلانے اور نوچنے والے کم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے تھے۔

”آخر ایسا کب تک چلے گا؟ میں زندگی کیسے جیوں گی؟“

یہ سوچ اسے ایسی چمٹی کہ وہ دن رات اس کے حصار میں رہ کر بے چینی سے تڑپنے لگی۔ جب اسے بچاؤ کا کوئی راستہ نظر نہ آیا تو اچانک اس کی نظریں وزیٹنگ کارڈ پر پڑ گئیں۔

”مجھے مدد لینی چاہئے۔“ اُس نے فیصلہ کرتے ہوئے خود سے کہا

ایک دن اُس نے کارڈ پر درج فون نمبر ڈائل کرکے مدد مانگ لی۔ دوسری طرف سے اُسے بہت ساری تسلیاں دی گئیں اور فوراً ملنے کو کہا گیا۔ وہ پل بھر میں بہت ساری امیدیں آنکھوں سے باندھے مطلوبہ جگہ پر پہنچ گئی۔ مگر وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا، سب فراڈ نکلا۔ نہ وہ بڑا آدمی تھا، نہ اُس کے تعلقات تھے اور نہ ہی اُس کی کوئی پہچان تھی۔ وزیٹنگ کارڈ تو بس ایک پھینکا ہوا پتہ تھا اُسے پھانسنے کے لئے اور وہ بڑے آرام سے اس میں پھنس گئی تھی۔ اُس دن وہ لٹ کے آئی تو تمام راستے بھی اُسے چھیڑتے رہے۔ شکایت لے کر تھانے گئی تو انگڑائیاں لیتے اُس کے خوشبودار جسم نے سب تھانے والوں کے نتھنے اور آنکھیں کھول کے رکھ دیں۔

میڈیکل، چالان، رپورٹیں، بیانات، شہادتیں قلم بند کرنے کے چکروں میں اُسے دن رات مختلف جگہوں پر طلب کیا جانے لگا جہاں قلم خاموش رہتا اور ان کے وجود بولتے رہتے۔ غریب والدین ہاتھ جوڑ جوڑ کر تنگ آ گئے مگر کورٹ کچہری کی کارروائیاں ختم نہ ہو سکیں۔

ذلالتوں کی بارش میں بری طرح سے بھیگنے کے بعد اُسے سمجھ آ گئی تھی کہ سماج کے دلالوں نے اُس کے جسم سے عزت کی چولی اتار پھینکی ہے اور اب یہ سلسلہ کبھی بھی ختم نہیں ہو گا۔ لوگ پہلے اُس پر صرف چبھتی نگاہیں پھینکا کرتے تھے مگر اب اس کی سماعتوں میں لچر گوئی کی بوندا باندی بھی شروع ہو گئی تھی اور اس پر طنزیہ و معنی خیز جملے پھینکنے جانے لگے جن کی چبھن اتنی تیز تھی کہ وہ اس کے ضبط کے آر پار ہو گئیں اور اُس کے حوصلوں کی دیوار میں بڑے بڑے شگاف پڑ گئے۔ اُس نے شور مچاتے اپنے جسم کو توجہ سے سنا، اُس کی زبان سمجھی اور حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے بالآخر اس نے خود کو تازہ جنس کے طور پر سماجی منڈی میں پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

اس نے تمام تر ضابطے ایک طرف رکھ کے سماجی منڈی میں قدم کیا رکھا کہ آتے ہی وہ چھا گئی۔ بھٹوں کی طرح سے پکے ہوئے اس کے لچکیلے جسم کی نمکین خوشبو دور دور تک پھیل گئی اور جسموں کو بھنبھوڑنے والے اِس نئی خوشبو کو سونگھتے ہی حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ یہ خوشبو کہاں چھپی ہوئی تھی؟ وہ نتھنے پھلائے، تاریک آنکھوں میں چمک لئے اسے ڈھونڈتے ہوئے خود بخود اس کی طرف آ نکلتے تھے۔ اپنے بوڑھے اور کمزور والدین کی عزت کو مزید داغدار ہونے سے بچانے کے لئے اِس کام کے لئے اس نے دیارِ غیر کو ہی اپنا مسکن بنایا جو دنیا کی ایک بڑی منڈی کہلاتی تھی جہاں راتیں جاگتیں اور دن سوتے تھے اور دنیا بھر کے سب سے بڑے دلال اور خریدار اسی منڈی میں ہی پائے جاتے تھے۔

وہ اس سماجی منڈی میں پوری شان کے ساتھ داخل ہوئی اور پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ آتے ہی اس کے انوکھے طریقے نے اسے جلد ہی ایک ایسا مقام دلا دیا جہاں سے صرف وہی نظر آتی تھی۔ منڈی میں آتے ہی اس نے اپنا رنگ ڈھنگ اور حلیہ بھی بدل لیا کہ وہ پہچانی بھی نہیں جاتی تھی۔ وہ مخصوص پینٹ شرٹ کے ساتھ جلوہ گر ہوئی جس نے اُسے برینڈ بنا دیا تھا۔ وہ ہمیشہ ٹائٹ قسم کی پینٹ پہنتی اور پینٹ بھی زپ والی جو جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی جہاں سے اس کا ابلتا ہوا خوشبودار گوشت باہر کو جھانک جھانک کر ندیدی آنکھوں کی بھوک بڑھاتا رہتا تھا۔ پینٹ ہی اس کی پہچان بن گئی اور وہ منڈی میں ”زپ والی“ کے نام سے مشہور ہو گئی تھی۔ اس کے طلب گاروں میں بڑے بڑے لوگ شامل تھے جن کی وہ آئیڈیل کہلاتی اور دنوں ہی دنوں میں وہ کہاں سے کہاں جا پہنچی تھی۔

شروع میں اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا، اجرت کے لیے کئی جگہوں پر منہ ماریاں بھی کرنا پڑیں مگر ایک انوکھے طریقے نے اسے پرسکون راستہ دکھا دیا تھا جس کی وجہ سے اُس کا کام بغیر کسی الجھن کے اچھے طریقے سے چل رہا تھا۔ اُس نے سماجی منڈی میں ایک ایسا انداز متعارف کروایا تھا کہ اب اُسے کسی سے بھی منہ ماری نہیں کرنا پڑتی تھی اور نہ ہی بھاﺅ تاﺅ کے جھنجھٹ برداشت کرنا پڑتے تھے۔ ہر جگہ اس کا مخصوص وزیٹنگ کارڈ ہی چلتا تھا جس کے ہر طرف کافی چرچے تھے، کیونکہ وہ وزیٹنگ کارڈ کی طاقت دیکھ چکی تھی کہ ہر کوئی کارڈ کی طرف خود چل کے آتا ہے۔ اُس کے کارڈ میں موبائل نمبر کے علاوہ صرف دو ہی باتیں درج تھیں جو اس کی کامیابی کی ضمانت بن چکی تھیں:

بٹن تیس ہزار روپے

زپ پچاس ہزار روپے

••• منیر احمد فردوس •••

(از افسانوی مجموعہ یہ کہانیاں پڑھنا منع ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *