!افسانہ – ڈریم شاپ

افسانہ ڈریم شاپ

علیم احمد۔

اس نے کچھ لوگوں کو خواب خریدتے دیکھا تھا۔ مگر ان کی تعبیر دیکھی تھی نا سنی تھی۔ باوجود اس کے، کہ خواب صرف خواب ہوتے ہیں۔ وہ انہیں مسلسل فروخت کر رہا تھا۔ اور کسی نے بھی آج تک خوابوں کی تعبیر سے متعلق نہیں پوچھا تھا۔ انہیں بہ خوبی علم تھا کہ خواب دیکھنے کے لئے اچھی یا بری آنکھوں کی قید نہیں ہے۔ یہ عمل بہرحال ہوسکتا ہے۔ خواہ آنکھیں کھلی رہیں یا بند۔

اس کے دونوں پاؤں ٹیبل پر ساکت پڑے تھے۔ سارا دھڑ کرسی کے حجم میں جمع تھا۔ لا تعلق صرف آنکھیں تھیں۔ جو اوپر ہی اوپر روشن تھیں۔ جیسے متواتر خوابوں کا نزول ہورہا ہو۔ کئی خواب اس کی آنکھوں کی گہرائی میں اتر گئے اور کئی پلکوں پر پیوست ہوئے۔ پھر دھیرے دھیرے غائب ہوتے رہے۔ طرح طرح سے انہیں پکڑنے کی کوشش کی کچھ گرفت میں آئے کچھ بہ آسانی اڑ گئے۔ مگر ان کے رنگ اس کی انگلیوں پر جم گئے۔ جو مکمل اس کے اختیار میں تھے۔ انہیں دکان میں دیگر خوابوں کے ساتھ سجا دیا۔ جنھیں فروخت کرنے کے لئے لگا دیا گیا تھا۔ اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کی قیمت کیا ہوگی۔ البتہ یہ یقین ضرور تھاکہ یہ صدیوں یوں ہی ٹنگے رہیں گے۔ جیسے ازل سے آسمان۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ چونکہ کہ ان کے نازل ہونے کے بعد سے وہ جن تغیرات سے دوچار ہوا تھا یا اس کی سوچ اور سمجھ کے مفہوم بدل گئے تھے۔ اس بات کو کسی نے مستعدی سے نہ سنا اور نہ ہی انہیں خریدنا پسند کیا تھا۔ بلکہ ٹھیک اسی طرح ٹنگے رہے۔ جس طرح سےابتداء میں انہیں سجایا گیا تھا ۔

دکان میں ہمہ قسم کے رنگین پیکیٹس لگے ہوئے تھے۔ کچھ دیواروں پر، کچھ چھت پر اور کچھ باہر نمونتا”چھجے سے جڑے ہوئے۔ جن میں خواب بند تھے۔ جو پاکٹ باہر ٹنگے ہوئے تھے وہ نیا اسٹاک تھا اور جو اندر چھت سے لٹکے ہوئے تھے وہ عرصہ دراز سے وہیں تھے۔ جن پر گرد ہی گرد جمی ہوئی تھی۔ کچھ پاکیٹوں کا رنگ اڑتا جا رہا تھا۔ ان کی رنگت پھٹی پھٹی سی لگ رہی تھی۔ گویا خواب ان راستوں سے فرار ہو رہے ہوں یا جھانکنے کی کوشش کررہے ہوں۔

اس شہر کی تہذیب بند کواڑوں کے قمقموں کی طرح تھی۔ جو شام ہوتے ہوتے وجود میں آتی۔ یہاں کے لوگ خواب دیکھنے کے عادی ہوچکے تھے۔ ان کا معمول تھا نیند میں چلنا یا آنکھیں کھلی رکھتے ہوئے بھی نیند کی آغوش میں رہنا۔ ان کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ آنکھوں کو ہمیشہ نیم وا رکھتے، جماہیاں لیتے، بیدار ہونا ان کی فطرت نہیں تھی۔ بہرحال وہ بھی ایک لمبی غنودگی میں کھیل رہا تھا۔

“آپ کے ہاں خوابوں کا کوئی نیا اسٹاک آیا ہے؟”

وہ جھنجلا گیا—- ” جی، جی کل ہی آیا ہے۔ یہ جو نیلے رنگ کے پاکٹ، جو آپ کے سر پر لٹک رہے ہیں یہ نیا اسٹاک ہی ہے۔”

“ان میں ورائٹی بھی ہے ؟”

“جی ہاں “

” یہ جو نیا اسٹاک ہے اس کی نوعیت کچھ مختلف ہے۔ ان کے استعمال کا ڈھنگ بھی کچھ عجیب سا ہے۔ آپ کیٹلاگ دیکھئے۔ تمام طریقے بیان کئے گئے ہیں”

“اچھا تو آپ کے پاس، محلوں کی شہزادیوں کے خواب آگئے ہیں کیا، جو آنے والے تھے “

“ایک منٹ —- ابھی بتاتا ہوں زرا انہیں یہ بتا دوں پھر آپ کو —-“

“دیکھئے میں اپنی عینک بھول آیا ہوں کچھ صاف دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ براہ کرم —— آپ ہی کیٹلاگ کی تفصیلات پڑھ کر سنا دیں تو بہتر ہوگا۔”

“ہاں—- ہاں —- تمام چیزوں سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹ جائیے۔ سرہانے اور پیرؤں تلے تکیہ ضروری ہے۔ لیٹنے سے قبل چہرے کو ٹھنڈے پانی سے دھو لیجئے۔ آنکھوں میں کچھ نمی ضروری ہے ۔”

“دور دور تک چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ ہرے بھرے لہلہاتے کھیت، سارے ماحول میں ہریالی بکھری ہوئی اور ایک نازک اندام پیکر دبے دبے پاؤں بڑہتا چلا آرہا ہے ۔”

[6/25, 1:07 AM] Mohammed Aalim: صفحہ 2

” آپ نے ہمیں بتایا نہیں — محلوں کی شہزادیوں کے خواب —-؟”

“ہاں— ہاں— بس ذرا انتظار کریں فرصت ملتے ہی آپ کی فرمائش پوری کروں گا ۔”

ابھی وہ کہہ رہا تھا کہ ایک دو گاہک اور آدھمکے۔ گاہک اس تیزی سے پہنچے کہ وہ تمام گاہکوں سے گریز کرتا ہوا ان سے مخاطب ہوا—

“دیکھئے آپ کو انتظار کرنا پڑے گا۔”

“نہیں بھائی ہم بڑی جلدی میں ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں نا ہماری کار جو سامنے کھڑی ہے یعنی ہم یہاں سے نارتھ کی جانب جا رہے ہیں۔ پلیز اس لمبے سفر کا خیال —–“

“خیر —کونسے خواب چاہیئے ؟”

“نہیں — ہمیں خواب نہیں چاہیئے ہمارے پاس خواب ہے جو توٹ چکا ہے ۔ ہم اس کی مرمت چاہ رہے ہیں۔ “

وہ سن رہا تھا۔ اسے یوں لگا جیسے اس نے کچھ نہیں سنا ۔ اس کی آواز اس کے اندر حلق میں دبی جا رہی تھی۔ وہ کہنا چاہ رہا تھا۔ دیکھئے میں خواب کی ہر تکنیک سے واقف ہوں۔ آپ کو صحیح طور سے گائیڈ کر سکتا ہوں آپ اس طرح سے — یہاں سے— مگر آج تک میں نے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی مرمت یا درستگی نہیں کی ہے۔ نا ہی میرے پاس ایسا کوئی طریقہ ہے اور نا ہی کوئی ایسے اوزار بنے ہیں کہ جس سے میں ٹوٹے ہوئے خوابوں کو درست کر سکوں۔

“پلیز—– زرا جلدی سدھار دیجئے۔ ورنہ ہم یہیں رہ جایئں گے “

وہ خواب کو ہتھیلیوں میں لیئے دیکھ رہا تھا کہ کہاں سے ٹوٹا ہے۔

“ہم ایک دن پھر حکومت — یہاں سے؟”

“یہ خواب آپ نے یہاں سے خریدا تھا ؟”

“جی ہاں — یہ دیکھئے اس کا ہرے رنگ کا پاکٹ —“

“مگر ہم نے جلدی میں اس کا گارنٹی کارڈ لینا بھول گئے ۔”

اس نے ان کو ایک نظر غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔

“خوابوں کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی بلکہ خوابوں کی تعبیر ہوتی ہے۔ “

“خیر—

“مگر میں نہیں سمجھتا کہ آپ نے یہاں سے لیا ہوگا۔

ٹھیک ہے — آپ نے کب لیا تھا ؟”

“ایک عرصہ گزر چکا ہے”

“اور ٹوٹا کب”

“اس کو بھی ٹوٹے ہوئے بھی — اتنا ہی وقت ہوا ہے”

“اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جب سے خریدا ہے ٹوٹا ہوا ہے۔”

“جی”

“آپ نے کہا تھا — محلوں کی شہزادیوں کے خواب بتلائیں گے۔ “

“ہاں زرا ان سے نپٹ لوں اور پھر —“

“ان سے بعد میں نپٹ لیں۔ ان کا خواب ٹوٹے ہوئے ایک مدت ہوئی ہے۔ اور انہیں فرصت اب ملی ہے۔ یہ بڑی مضحکہ خیز بات ہے۔ خیر چھوڑیئے ہمیں کیا—“

“ہمیں ہماری نیندوں سے جدا ہوئے ایک طویل عرصہ ہوا ہے اور ہم محض جاگ رہے ہیں۔ ممکن ہے ہماری نیندیں لوٹ کر بستر کے پہلے سرے پر کھڑی ہمارا انتظار کررہی ہوں ۔ یہاں سے ہمیں جلد واپس لوٹنا ہے۔ پلیز ہمیں اٹینڈ کریں۔”

وہ کسی کو بھی تسلی بخش جواب نہیں دے پارہا تھا یہ احساس شدید ہوتا جارہا تھا۔ کہ ٹوٹے ہوئے خوابوں کو کس طرح درست کیا جاسکتا ہے ۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کسی طرح سے ان گاہکوں کو ٹال دے کہ ایک اور گاہک آن پڑا۔

“بڑی حماقت کی تھی۔ بڑی طول طویل تمہید باندھی تھی۔”

یہ لو— آپ کا خواب کس قدر فرسودہ اور بکواس ہے۔ میں نے ابھی چھوا بھی نہیں تھا کہ بس سب کچھ ختم ہوگیا۔ اس طرح کے خواب کیوں بیچتے ہو۔ اصل تو یہ ہے کہ ہم ہی عقل سے مبرّا ہیں۔ بجائے خواب کے تھوڑی سی بے وقوفی ہی خرید لیتے تو بہتر ہوتا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اس کے چہرے پر غصے سے پاکٹ دے مارا اور نکل گیا ۔

مزاج میں ہلکی سی سستاہٹ تھی۔ دن بھر دکان میں وہ سوتا رہا۔ دن ڈھلنے کو تھا۔ راستوں پر لوگوں کی چہل پہل بڑھتی جا رہی تھی ۔ وہ خوابوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔ خواب کہاں سے آتے ہیں ۔ کہاں بنتے ہیں ۔ کن تاثرات سے معمور ہوتے ہیں ۔ اول اول اس نے بھی خوابوں کے سفر سے اپنا دامن جوڑ رکھا تھا۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ خواب دیکھنے یا سوچنے سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ حالاں کہ اس نے اپنے بزرگوں کی تمام تصویریں بھی چھان لیں تھیں۔ مگر ان کی آنکھیں صرف اور صرف خالی تھیں۔ اسے معلوم نہ ہوسکا کہ اس کے بزرگوں نے کوئی خواب دیکھا تھا یا نہیں۔ یا کوئی خواب ان کی موت کے بعد ان ہی کے ساتھ چلا گیا تھا۔ اس کے ذہن میں اپنے بزرگوں کی تعبیرات کے نقوش ابھر ہی رہے تھے کہ ایک گاہک کی آواز پر متوجہ ہوا۔

“دیکھئے مجھے بار بار خواب میں موت کو دیکھنا ہے کیا آپ میری —“

“نہیں “

“تو پھر مجھے آپ اپنے خواب سنا سکتے ہیں “

وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایک اور گاہک آپہنچا ۔

“سنئیے جناب— آج تین دن ہوئے میرا خواب گھر سے غائب ہوئے۔ کہیں آپ کے پاس لوٹ کر تو نہیں ایا ۔”

” دیکھئے خواب کوئی ایسا جانور نہیں ہے جو اپنی رسی توڑ کر اپنے پرانے مالک کے پاس چلا ائے— “

“ہاں تو آپ کیا کہہ رہے تھے — آپ میرے خواب سنیں گے “

“جی”

وہ اٹھا اور ایک ایک کر کے سبھی پاکٹ دکان میں پھیلا دئے۔ وہ ہر پاکٹ کو کھول کر دیکھ رہا تھا۔ تقریباً تمام پاکٹ ختم ہوگئے۔ مگر اس کو اپنا خواب کہیں نظر نہیں آیا۔ وہ گھبرا گیا اور پھر تلاش شروع کر دی ۔ مزید کوششوں کے باوجود اسے اپنا خواب نہیں ملا۔ پھر اسے یہ بھی محسوس ہوا کہ وہ اپنےخواب بھی بھول چکا ہے۔ وہ اپنے خواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک چکا تھا۔ اس کا سارا جسم پسینےمیں شرابور ہو چکا تھا۔ اس نے ٹھنڈی سانسیں لیں اور پنکھا ان کئے بیٹھ گیا ۔ کچھ ہی دیر میں ہوا کا زور بڑھتا گیا اور سبھی خواب ہوا میں اڑتے ہوئے دکان سے باہر نکل گئے۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ آسمان میں سبھی خواب اڑ رہے ہیں اور اس کے اطراف خالی پاکٹ بکھرے پڑے ہیں ۔