!!افتخار عارف کی غزلیں
دل کو دِیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم
خاک ہو جائیں جو رُسوائی کو شُہرت کریں ہم
اِک قیامت کہ تُلی بیٹھی ہے پامالی پر
یہ گُزرلےتوبیانِ قد وقامت کریں ہم
حرف ِ تردید سے پڑ سکتے ہیں سَو طرح کے پیچ
ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم
دل کے ہمراہ گزارے گئے سب عُمرکے دِن
شام آئی ہے تو کیا ترکِ محُبت کریں ہم
اک ہماری بھی امانت ہے تہ ِ خاک یہاں
کیسے ممکن ہے کہ اس شہر سے ہِجرت کریں ہم
دن نکلنے کو ہے چہروں پہ سجا لیں دُنیا
صُبح سے پہلے ہر اِک خواب کو رُخصت کریں
شوق ِآرائش ِ گل کایہ صلہ ہے کہ صبا
کہتی پھرتی ہے کہ اب اور نہ زحمت کریں ہم
عُمر بھر دل میں سجائے پھرے اوروں کی شبیہ
کبھی ایسا ہو کہ اپنی بھی زیارت کریں ہم
——— 2——–
سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں
ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں
سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مدد کیلئے پکارا نہیں
جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار
جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں
ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امیں
ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں
—— 3 ———
مدینہ و نجف و کربلا میں رہتا ہے
دل ایک وضع کی آب و ہوا میں رہتا ہے
مرے وجود سے باہر بھی ہے کوئی موجود
جو میرے ساتھ سلام و ثنا میں رہتا ہے
میسّر آتی ہے جس شب قیام کی توفیق
وہ سارا دن مرا، ذکرِ خدا میں رہتا ہے
غلامِ بوذر و سلمان دل، خوشی ہو کہ غم
حدودِ زاویۂ ھَل اُتیٰ میں رہتا ہے
درود پہلے بھی پڑھتا ہوں اور بعد میں بھی
اسی لیے تو اثر بھی دعا میں رہتا ہے
نکل رہی ہے پھر اک با حاضری کی سبیل
سو کچھ دنوں سے دل اپنی ہوا میں رہتا ہے