!!ادھر ڈوبے ادھر نکلے کا تجزیہ

والد مرحوم الطاف پرواز ایک دفعہ فرمانے لگے کہ جب ریٹائر ہو گے تو اپنی یادداشتیں ضرور قلم بند کرنا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا، ابا جی لوگ شفیق الرحمٰن اور کرنل محمد خان کو پڑھ چکے ہیں، میری تحریر کو کون گھاس ڈالے گا؟ انھوں نے ایک مختصر بات کی کہ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے اور ہر کتاب کی پسندیدگی کی کوئی خاص وجہ ہوتی ہے برخوردار۔ جب دو ساتھیوں بریگیڈئر صولت رضا اور کرنل اشفاق حُسین نے ”کاکولیات“ اور ”جنٹلمین بسم اللہ“ لکھیں تو فرمانے لگے دیکھ لو… شفیق الرحمٰن اور کرنل محمد خان کو پڑھنے والے قاری اب ان فوجی مصنفوں کو بھی تو پڑھیں گے۔ کہنے لگے اس میں دیر سویر کا کوئی عمل دخل نہیں۔ تمھارا مشاہدہ جتنا زیادہ ہو گا کتاب اتنی ہی اچھی لکھی جائے گی۔ بس اس بات کا خیال رکھنا کہ تمھاری کتاب کا مواد دیگر تصنیفات سے مختلف ہو۔ ان میں جھلک بھلے محمد خان کی بھی ملے اور ضمیر جعفری کی بھی، بےشک شفیق الرحمٰن بھی نظر آئیں اور صدیق سالک بھی لیکن تحریر سہیل پرواز کی بولے

۔ ہم دل ہی دل میں سوچنے لگے کہ ہمارے بزرگوں جنرل شفیق الرحمٰن اور میجر سیّد ضمیر جعفری نے تو نہایت دانش مندی کا مظاہرہ کیا اور مزاح رقم کرتے سمے فوجی زندگی کو بھاری پتّھر کی طرح چُوم کر چھوڑ دیا۔ رہ گئے بریگیڈئر صدیق سالک تو انھوں نے سیاست کے تڑکے والا تلخ مزاح تحریر کیا اور جس ہنستے مسکراتے صدیق سالک کو ہم نے مشرقی پاکستان بھیجا تھا واپسی پر جب ان کا واہگہ بارڈر پر استقبال کیا تو ان کی مسکراہٹ کو تلخیاں سمیٹے پایا۔ جبکہ بریگیڈئر صولت رضا نے محض کاکول کی صعوبتوں کی دہائیاں دیں اور کرنل اشفاق نے معلم ہونے کے ناتے اپنی تحریروں کو تعلیم و تربیت کا رنگ دیے رکھا۔ آ جا کے رہ گئے ہمارے پیارے اور واجب الاحترام کرنل محمد خان جن کی تحریریں پڑھ کر دل میں اِک ہُوک سی اٹھتی کہ کاش ہم دوسری عالمگیر جنگ کے زمانے میں فوج میں کیوں نہ بھرتی ہوئے۔ موصوف نے اپنی کتابوں ”بجنگ آمد“ اور ”بسلامت روی“ میں باوردی گوری حسیناؤں کا ذکر ایسے کیا کہ کیا کسی نے پولٹری کی حَسین و جمیل اُجلی اُجلی گوری چٹی مرغیوں کا تذکرہ کیا ہو گا۔ ہر دوسرے صفحے پر ایک نئے دل پھینک عشق کا تذکرہ یا اس سے ملتے جلتے جذبات کا اظہار، جنھیں بالفاظِ دیگر ٹھرک پن بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے باوجود موصوف دوسری عالمگیر جنگ کے عذر کو ”دھوئیں کی آڑ“ (Smoke Screen) بنا کریوں صاف بچ کر نکل گئے جیسے کوئی میدانِ جنگ کی سموک سکرین سے نکلتا ہو گا اور ہمارے لیے چھوڑ گئے موجودہ حالات میں ایک ایمان کی دلدادہ فوج پر لکھنا۔ بہت کوشش کی کہ ایک سپاہی کے اس رُخ کو بھی چھیڑا جائے جسے کرنل محمد خان نے یوں بیان کیا جیسے فوج میں کسی بھی افسر کے لیے رنگینیوں اور عشوہ طرازیوں کے جلو میں فرائضِ منصبی ادا کرنا معمول کی بات تھی لیکن ہم ناکام و نامراد رہے۔ تاہم اپنے تئیں پوری کوشش کی ہے کہ کسی بھی افسر کی ذاتی زندگی کے اس گوشے کو بھی اجاگر کریں کہ پاک فوج کا ہر افسر اور جوان معاشرے کے کسی بھی دوسرے نوجوان سے منفرد نہیں اور نہ ہی اس سے یہ توقع رکھی جانی چاہیے کہ پیشہ ورانہ سرگرمیاں اس کے لیے لازم اور دلبرانہ سرگرمیاں شجرِ ممنوعہ ہیں۔

آئی ایس پی آر میں ملازمت کے باوجود میری اس کتاب میں آپ کو کسی غیر پیشہ ورانہ مشغلے کی جھلک نظر نہیں آئے گی کیونکہ ”اباؤٹ ٹرن“ دراصل کسی بھی فوجی کے فوج میں بھرتی ہونے سے لے کر کٹ جمع کرانے یا ریٹائر ہونے تک کی داستان ہے۔ اس کا نوکری پوری کرنے کے بعد گھر آنا، پریڈ کی کمانڈ ”پیچھے پِھر“ یا About turn سے مماثلت رکھتا ہے اور میرا ارادہ بھی اس کتاب کا نام ”پیچھے پِھر“ یا ”اُلٹا پِھر“ رکھنے کا تھا کہ ہمارے زمانے میں یہی کمانڈ چلتی تھی لیکن برادرم بریگیڈیئر صولت رضا کی شدید مخالفت، برادرانہ سرزنش اور ”پیچھے پِھر“ یا ”اُلٹا پِھر“ کی فصیح و بلیغ وضاحتوں کے بعد اس کا نام ”اباؤٹ ٹرن“ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیچھے پھر کمانڈ کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن عام زندگی میں کسی کو پیچھے پھرنے کو کہا جائے تو وہ کہیں کو بھی منہ اُٹھا کر چل سکتا ہے جبکہ ”اباؤٹ ٹرن“ کا مطلب ہے کہ آپ مُڑ کر پھر سے وہیں پہنچ جائیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا یعنی… ^

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے کہ میں آپ کو ”روزمرّہ عسکری زندگی“ کے قریب لانے اور آپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے میں کتنا کامیاب رہا ہوں۔

✍🏻سہیل پرواز Sohail Parwaz