!!اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

” اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو“

( ڈاکٹر بشیر بدر )

از قلم:خورشید جمال

اردو زبان و ادب کی تاریخ جب تک زندہ رہے گی ڈاکٹر بشیر بدر کا نام بھی نمایاں رہے گا۔بقول مشہور و معروف ناظمِ مشاعرہ اور شاعر مرحوم ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد” جدید اردو غزل کا کوئی منظر نامہ ڈاکٹر بشیر بدر کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا ۔“ واقعی ڈاکٹر بشیر بدر کی شاعری اردو زبان و ادب کا بیش قیمتی سرمایہ ہے۔ڈاکٹر بشیر بدر کو جدید اردو شاعری میں”غزل کا امام“ کہا جاتا ہے۔انھوں نے اپنی منفرد شاعری اور نۓ نیے تشبیہات و استعارات سے اردو زبان و ادب کو مزید مالا مال کیا۔ان کے متعدد اشعار آج بھی زبان زد عام ہیں۔ذیل میں ان کے ایسے ہی چند مخصوص اشعار ملاحظہ فرمائیں:

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جاۓ

کوئی ہاتھ بھی نہ ملاۓ گا جو گلے ملوگے تپاک سے

یہ نۓ مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو

سات صندوقوں میں بھر کر دفن کردو نفرتیں

آج انسان کو محبت کی ضرورت ہے بہت

زندگی تونے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں

پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے

مخالفت سے میری شخصیت سنورتی ہے

میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں

ہم بھی دریا ہیں ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے

جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہوجاۓ گا

بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا

جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا

یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں

مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کردے

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی

یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

ڈاکٹر بشیر بدر کا اصل نام سید محمد بشیر ہے۔وہ 15 فروری 1935 کو ریاست اتر پردیش کے تاریخی شہر فیض آباد موجوہ ایودھیا میں پیدا ہوۓ۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے علم و ادب کا گہوارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کیا پھر وہیں سے”آزادی کے بعد اردو غزل کا تنقیدی مطالعہ“ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔پہلے انھوں نے بحثیت لکچرر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیۓ۔بعد ازاں میرٹھ یونیورسٹی سے وابستہ ہوگۓ اور وہیں بحثیت صدر, شعبہ اردو تقریباََ 17 سالوں تک اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔

ویسے تو بشیر بدر نے روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے ہر طرح کے مسائل اور واقعات کو اپنے اشعار کے ذریعہ بہت سلیقے سے اجاگر کیا ہے۔ تاہم ان کے اشعار اور ان کی غزلوں میں محبت کا پہلو نمایاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ”محبت کا شاعر“ کہا جاتا ہے۔ ان کی غزلوں میں چاشنی بھی ہے, موسیقئیت بھی ہے اور نغمگی بھی ہے۔ان کے ایسے ہی اشعار آپ کی نذر ہیں:

کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے رِبن سے بندھا ہوا

وہ غزل کا لہجہ نیا نیا, نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا

جسے لے گئی ہے ابھی ہوا وہ ورق تھا دل کی کتاب کا

کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا کہیں آنسوؤں سے لکھا ہوا

سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے

باوضو ہو کے بھی چھوتے ہوۓ ڈر لگتا ہے

چاند محراب پہ سوئی ہوئی ایک آیت ہے

بے وضو آنکھیں ہیں پڑھتے ہوۓ ڈر لگتا ہے

میں تِرے ساتھ ستاروں سے گزر سکتا ہوں

کتنا آسان محبت کا سفر لگتا ہے

چاند سا مصرع اکیلا ہے میرے کاغذ پر

چھت پہ آجاؤ میرا شعر مکمل کردو

تم مجھے چھوڑ کے جاؤ گے تو مرجاؤں گا

یوں کرو جانے سے پہلے مجھے پاگل کردو

پتھر مجھے کہتا ہے میرا چاہنے والا

میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا

ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجتے ہیں

عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں

بشیر بدر کے اشعار کی مقبولیت ہر دور میں اور ہرخاص و عام میں رہی ہے۔بڑے بڑے نقاد, مقرر,قلمکار اور سیاستداں اپنی بات کو مؤثر انداز میں پیش کرنے کے لۓ ان کے اشعار کا سہارا لیتے ہیں۔حتی کہ راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں بھی ان کے اشعار کی گونج ہمیشہ سننے کو ملتی ہے۔ سال 1972 میں شملہ سمجھوتہ کے وقت پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے ہمارے ملک ہندوستان کے اس وقت کی وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی جی کو ڈاکٹر بشیر بدر کے درج ذیل شعر کے ذریعہ دوستی اور محبت کا پیغام دیا تھا:

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے

جب کبھی ہم دوست ہوجائیں تو شرمندہ نہ ہوں

فروری 2018 میں لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر و کانگریس پارٹی کے قدآور نیتا ملکارجن کھرکے نے حکمراں جماعت کے لۓ جب ڈاکٹر بشیر بدر کا متذکرہ بالا شعر کہا تو ہمارے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی جی نے ان کا جواب بھی بشیر بدر کے درج ذیل شعر کے ذریعہ دیا تھا:

جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں

کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا

سال 1987 میں جب میرٹھ میں فرقہ وارانہ فساد کے دوران انکے گھر کو نذر آتش کردیا گیا تو اس آگ کی لپیٹ میں ان کی کئی اہم اور غیر مطبوعہ تخلیقات و تصانیف بھی جل کر خاکستر ہوگئی۔اس حادثہ نے ان کے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر ڈالا اور وہ اتنے دلبرداشتہ ہوۓ کہ بھوپال (مدھیہ پردیش) منتقل ہوگۓ اور کئی مہینوں تک لکھنا پڑھنا ترک کر دیا۔پھر لوگوں کے اصرار پر جب لکھنا شروع کیا تو انہوں نے اپنی آپ بیتی کو جگ بیتی بنادیا اور درج ذیل مشہور شعر لکھا :

لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں

تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں

سال 1999 میں ڈاکٹر بشیر بدر اس وقت کے ہمارے ملک ہندوستان کے وزیر اعظم آنجہانی شری اٹل بہاری واجپئی جی کے ساتھ جب امریکہ کے دورہ پر گۓ تو وہاں منعقد مشاعرے میں انھوں نے امریکہ کے صدر جارج ڈبلو بش کے ذریعہ غریبوں, کمزوروں اور معصوموں پر ہوۓ ظلم و بربریت کے خلاف مندرجہ ذیل شعر پڑھا تھا :

معصوم جگنوؤں کو مسلنے کا شوق ہے

توبہ کرو,خدا سے ڈرو, تم نشے میں ہو

ایک طرف شاعر جہاں اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ دور اندیش بھی ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ آج کو بھی دیکھتا ہے اور آنے والے کل کے مسائل کو بھی سمجھتا ہے۔ ڈاکٹر بشیر بدر میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔ایک طرف جہاں انہوں نے اپنے عہد کی ترجمانی کی ہے تو دوسری طرف انہوں نے آج کے ہندوستان کی تصویر کشی بھی بہت پہلے کردی تھی۔ جیسا کہ آج ہمارے ملک ہندوستان میں مسلمانوں کو تعصب کا نشانہ بنایا جار ہا ہے اور ان کی حب الوطنی کو شک کے دائرے میں رکھا جارہا ہے۔موجودہ حکومت اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور لوگوں کے ذہنوں کو منتشر کرنے کے لۓ مسلمان اور پاکستان کے نام کا استعمال کررہی ہے۔ عالم یہ ہے کہ عدالت ہو میڈیا یا پھر اخبارات موجودہ حکومت کی ماتحتی میں کام کر رہے ہیں۔اس پس منظر میں ڈاکٹر بشیر بدر کے درج ذیل اشعار جسے انہوں نے بہت پہلے لکھا تھا ملاحظہ فرمائیں:

ہندوستان کا سچا وفادار میں ہی ہوں

قبروں سے پوچھ اصلی زمیندار میں ہی ہوں

دریا کے ساتھ وہ تو سمندروں میں مل گیا

مٹی میں مل کے مٹی کا حقدار میں ہی ہوں

ہندو بنو تو متھرا , مسلم بنو تو مکہ

انسان اگر رہو تو سارا جہاں تمہارا

روٹیاں کچی پکیں, کپڑے بہت گندے دھلے

مجھ کو پاکستان کی اس میں شرارت سی لگی

بڑے شوق سے میرا گھر جلا,کوئی آنچ تجھ پر نہ آۓ گی یہ زباں کسی نے خرید لی , یہ قلم کسی کا غلام ہے

ڈاکٹر بشیر بدر کے سات شعری مجموعے اردو میں اور ایک ہندی میں منظر عام پر آچکے ہیں۔ آپ کی تصانیف میں ”اکائی, آسمان, امیج, آمد, آہٹ , آس, اللہ حافظ اور بیسویں صدی میں اردو غزل“ خاص طور سے قابلذکر ہیں۔ان کی کئی تخلیقات کا ترجمہ انگریزی اور فرانسسی زبان میں بھی ہوا ہے۔انکے چار شعری مجموعے( امیج , آمد, آسمان اور آس) کا مجموعہ’کلیات بشیر’ کے نام سے پاکستان میں شائع ہوچکا ہے۔اردو زبان و ادب کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں سال 1999 میں انھیں ملک کا اعلی ترین اعزاز ‘پدم شری’ سے سرفراز کیا گیا۔ علاوہ دیگرے اردو ادب کے لۓ ‘ساہتیہ اکاڈمی’ ایوارڈ سے بھی نوازے گۓ ہیں۔آپ مدھیہ پردیش اردو اکاڈمی کے چئیرمین کے عہدہ پر بھی فائز تھے۔ بالی ووڈ فلم ”ڈیڑھ عشقیہ (2014)“ اور” مسان (2015)“ میں ان کے متعدد اشعار کو سنا جاسکتا ہے۔علاوہ دیگرے انکی کئی غزلوں کو مشہور و مقبول غزل سنگر جگجیت سنگھ اور چندن داس نے اپنی مسحور کن آواز میں گایا ہے۔فی الحال وہ بھوپال (مدھیہ پردیش) میں قیام پزیر ہیں اور ڈیمنیشیا کے مرض میں مبتلا ہیں۔اس مرض کی وجہ سے وہ اپنے مشاعرے کے دنوں کو بھول گۓ ہیں۔

المختصر ڈاکٹر بشیر بدر کی شاعری نے اردو زبان و ادب کو وہ انفرادیت بخشی ہے جو قیمتی ورثے کی طرح ہمیشہ محفوظ رہے گی۔ وہ(ڈاکٹر بشیر بدر) بھلے ہی اپنے مشاعرے کے دنوں کو بھول گۓ ہیں لیکن ان کا جدید لب و لہجہ, منفرد انداز بیاں اورخوبصورت و دلکش اشعار آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔

میں راقم المضمون اپنی تحریر کا خاتمہ ان(ڈاکٹر بشیر بدر) کے مشہور زمانہ شعر پر کررہا ہوں جس کا استعمال آج بھی مختلف طرح کی ادبی محفلوں اور جلسوں کے اختتام پر کیا جاتا ہے:

مسافر ہو تم بھی, مسافر ہیں ہم بھی

کسی موڑ پر پھر ملاقات ہوگی